Monday 4 September 2017

حضرت سلیمان علیہ السلام اور جادو

سلیمان علیہ السلام اور جادو
سلیمان علیہ السلام اور جادو

 یہود یوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ بہتان تراشا ہے کہ ہم جادوکو مذہبی تقدس اس لئے دیتے ہیں کہ ہماری قوم میں اس کی بنیاد حضرت سلیمان علیہ السلام نے رکھی ہے اور اپنے عہد سلطنت میں انہوں نے لوگوں کو باقاعدہ جادو کی تعلیم دی ۔ ہم تو ان کی دی ہوئی تعلیم پر چل رہے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :ترجمہ: ان لوگوں نے ان باتوں کی پیروی کی جو شیاطین سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت میں انہیں بتا تے تھے ۔ سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا ہے جو لوگوں کو جادوسکھارہے تھے ۔ اور جو نازل کیا گیا ھاروت اور ماروت نام کے دو فرشتوں پر بابل شہر میں ۔ یہ دونوں فرشتے اللہ کی طرف سے نازل شدہ کلمات جب بھی کسی کو سکھا تے تو پہلے اسے کہتے کہ ہم (تم لوگوں کے لئے اللہ کی طرف سے ) آزمائش ہیں، تم کفر اختیارنہ کرو ۔ مگر وہ لوگ ان فرشتوں سے وہ باتیں سیکھتے جن کے ذریعے آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کروادیتے ۔ یہ لوگ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے (حقیقی قادر مطلق تو فقط اسی کی ذات ہے) انہیں یقیناًیہ معلوم تھا کہ جو شخص یہ چیز لے گا، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔کتنی بری چیز کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا۔ کاش وہ جانتے۔ اور اگر یہ لوگ ایمان اور تقویٰ اختیا ر کرتے تو اللہ کے ہاں (اس کا ) اجر بہت بھلا ہے ۔ کا ش یہ لوگ جانتے
!(ف) مفسرین کے یہا ں قرآن کریم کا یہ مقام نہایت معرکۃ ا لآ راء مقام ہے ۔اسلئے چند ضروری امور کی طرف سرسری اشارے کرنے پر اکتفا ء کرتے ہیں۔ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم ۔
یہودیوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر اپنی کمینہ خصلت کے باعث یہ الزام عائدکررکھا تھا کہ ہم لوگوں نے جادوکا علم انہی سے سیکھا ہے یا یہ کہ یہ علم ان سے وراثت میں چلاہے ۔اس سلسلے میں بہت سی برخود غلط حکایتیں اور روایتیں یہودنے مشہور کر رکھی تھیں ۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک پاک پیغمبر کے صاف اور اجلے دامن سے اس ناروااور من گھڑت الزام کا داغ دھویا ہے   (وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْا)۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جادو کی حرمت وشناعت ظاہر کرنے اور اس سے لوگوں کوباز رکھنے کے لئے خاص مصلحت کے تحت دوفرشتوں کی ڈیوٹی لگائی ۔انہوں نے بابل شہر میں لوگوں کو فرداً فرداً جادو سیکھنے سے منع کیا اور اس کا کفر ہونا واضح کیا اورساتھ ہی لوگوں کو اللہ پاک کے اسمائے حسنیٰ اور کلام مبارک کے ذریعے مختلف مشکلات کے حل کے طریقے بھی بتلائے کہ جادووغیر ہ کی بجائے یہ مبارک راہ اختیار کرو اور اللہ سے ہرحاجت میں مدد مانگو ۔لیکن کج فطرت یہودیوں نے ان سے بھی جو کچھ سیکھا اس کا استعمال گھٹیا اور مذموم مقاصد میں کیا اور علمائے اسلام کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جس طرح جادو کر نا اور سیکھنا کفر وحرام ہے اسی طرح صحیح اعمال کا غلط استعمال (تفریق بین الزوجین وغیر ہ ) بھی حرام ہے ۔
یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈیوٹی سر انجام دینے کیلئے ،لوگوں کی راہنمائی کرنے اور انہیں غلط راستے سے بچانے کے لئے کچھ عر صہ کے لئے بابل شہر میں اتر ے تھے۔
ان کے بارے میں یہودیوں کی خرافاتی داستان کہ ’’انہوں نے انسانوں کی نافرمانی وسر کشی کے مقابلے میں اپنی پارسائی واطاعت شعاری پر ناز وفخر کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بطور سزایا بطور آزمائش زمین پر اتار دیا، جہاں آکر یہ دونوں ’’زہرہ‘‘ نام کی ایک عورت پر فریفتہ ہو گئے ،اس سے جب انہوں نے قربت کا تقاضا کیا تو اس نے شرط عائد کی کہ جب تک تم شر اب نہیں پیوگے ،قتل نہیں کروگے ،بت کو سجد ہ نہیں کروگے تب تک میں تمہیں اپنا قر ب نہیں دوں گی ۔انہوں نے یہ تینوں کام کرلئے ۔پھرجب اس سے مشغول قربت ہوئے تو اس نے اس وقت ان سے پوچھا کہ تم لوگ آسمان پر کس طرح جاتے ہو ؟ انہوں نے اسے اسم اعظم سکھا دیا اور زہر ہ اسم عظم پڑھ کر آسمان پر چلی گئی اور یہ دونوں فرشتے اللہ کے غضب کا شکار ہو کر بابل کے ایک کنویں میں قید ہو گئے۔اب جو شخص ان کو آوازدے کر ان سے جادو سیکھنا چاہتا ہے ، یہ اسے پہلے روکتے اور کافر ہوجانے کا خوف دلاتے ہیں ،اگر اصرار کرے تو پھر اسے جادو سکھا دیتے ہیں، پھر اس سے پوچھتے ہیں تجھے کچھ نظر آیا ؟ وہ کہتا ہے کہ ایک نورانی شخص گھوڑے پر بیٹھ کر جا تا نظر آرہا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیر اایمان ہے جو تجھ سے رخصت ہو گیا ہے ،اور اب تو جادوگر بن گیا ہے ۔قیا مت تک یہ دونوں فرشتے بابل کے کنویں میں اسی طرح الٹے لٹکے رہیں گے‘‘۔

یہ داستا ن نہ صرف سراسر کذب وافتراء ،بہتان ،جھوٹ،بر خودغلط اور خانہ زادہے ۔بلکہ اس کا لفظ لفظ اپنی تشکیل وھئتِ کذائی پر خود ہنس رہا ہے۔ فرشتوں کو زہر ہ کے عشق میں مبتلاتو کر وادیا ،اب اس سے ہم آغوش ہونے کیلئے جو شرائط گھڑ رہے ہیں اس میں اصل بات تویہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اوپر نیچے بڑے بڑے گنا ہ کئے جن کی وجہ سے مبتلائے غضب ہو گئے لیکن کم بختوں کو اتنی بات سمجھ نہ آئی کہ قتل ،شراب اور بت کے آگے سجد ہ کرنے میں ایک الہڑ دوشیز ہ کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ؟ لیکن داستان گو کہانی کو جب چاہے نیا موڑدیدے ! اسے کو ن روک سکتا ہے ؟ پھریہ کہ ’’دوران مباشرت ‘‘زہرہ نے پوچھا ،سوال یہ پیداہو تا ہے کہ دونوں فرشتے بیک وقت مباشرت کر رہے تھے ؟ اور اگر اس نے فرشتوں سے اسمِ اعظم ہی پوچھا تھا تو قتل وشراب نوشی کی بجائے اسمِ اعظم کا شرط کیوں نہ رکھی؟ کتنی مضحکہ خیز داستان بنا ئی ہے ۔پھر ان کا جواب میں اسمِ اعظم بتلانا بھی بے تکی اور واھیات بات ہے
۔فرشتوں کا آسما نوں پر چڑھنا یا زمین پر اتر نا کسی اسم اعظم کے پڑھنے کا مرہو ن منت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی وہ چڑھتے اور اترتے ہیں ۔پھر اسمِ عظم پا کر زہر ہ تو آسما نوں پر چڑھ گئی جو شاگرد بھی ہے اور انسان بھی! مگر اساتذہ جو کہ فرشتے ہیں وہ زمین پر بیٹھے منہ دیکھتے رہ گئے ؟ کیا دوسر ے کو سکھا دینے سے سکھانے والے کا اسم اعظم ناکارہ ہوجاتا ہے؟  اوریہ بھی عجیب غضب ڈھایا ہے کہ زہرہ پر تو اتنی نوازش کہ وہ انسان ہونے کے باوجود‘ دومعصوم فرشتوں کو گمراہ کرنے ،انہیں شراب ،قتل اور شرک جیسے کفر یہ گنا ہوں میں مبتلا کرنے کے باوجود ،دو دوفرشتوں سے بیک وقت بد کاری کرنے کے باوجود وہ تو آسمانوں پر چڑ ھ گئی (اس کے نام سے شمسی نظام کا ایک سیارہ بھی موسوم ہے )مگر اس کے بہکاوے میںآنے والے فرشتوں پر اللہ کا غضب مسلط ہو گیا۔ اللہ کے دربار میں تو ایسا اندھیر نہیں ہے کہ برائی کی دعوت دینے اور اس میں شریک ہوکر اسے انجام تک پہنچانے والے مجرم پر نوازشات کی برکھابرسنے لگ جائے اور بہکاوے میں آکر (پہلی بار) پھسلنے والے بھولے بھالے گناہگاروں کو تاقیامت اتنی بڑی سزامیں مبتلا کردیا جائے ۔ہماری یہودیوں سے گذارش ہے کہ یا دونوں فریقوں کو سزادلوائیں یا دونوں کو معاف کروائیں ۔
اس خرافی داستان کو بعض مفسرین نے بتلاتے ہو ئے کہ یہ یہودکی خانہ زاد کہانی اورمن گھڑت داستان ہے،اپنی تفاسیرمیں ذکر فرمایا ہے ۔لیکن بعد کے لوگوں نے اس اسرائیلی خرافات کو یقین واعتقاد کی نظر سے دیکھنا اور اسے اس آیت کریمہ کی تفسیر سمجھنا شروع کر دیا ۔یہودنے سحرکو ایک مذھبی تقدس کا درجہ دے رکھا تھا بلکہ قدیم اقوام میں بالعموم جادو کو مذہبی تقد س حاصل تھا ،اس آیت مبارکہ میں اسے کفر قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو اس پر متنبہ فرمایا ہے کہ کہیں کل کلاں یہ بھی اس غلط فہمی اور کج فکری کا شکار نہ ہوجائیں ۔ 
Share:

0 comments:

Post a Comment

Kindly Report Dead or Broken link..

General Help
+923357764997
+923457818315

CONTECT US

ہمارے متعلق شفا ء علی آن لائین تشخیص و علاج

ہمارے متعلق شفا ء علی آن لائین تشخیص و علاج کی سروس  لوگو ں کے مسائل اور وقت کی ضرورت کے تحت شروع کی گئی دور درازکے  اور ایسے لوگ جو ...

Blog Archive