Monday 4 September 2017

کیا جنات شکلیں بدل سکتے ہیں

 جنات شکلیں بدل سکتے ہیں
کیا جنات شکلیں بدل سکتے ہیں

حضوراکرمﷺ کاارشادگرامی ہے ۔
اَلْجِنُّ ثَلَاثَۃُاَصْنَافٍ: صِنْفٌ یَطِیْرُفِیْ الْھَوَآءِ وَصِنْفٌ حَیَّاتٌ وَّکِلَابٌ وَصِنْفٌ یَحُلُّوْنَ وَیَظْعَنُوْنَ۔
جنات تین قسم کے ہوتے ہیں۔ (۱) ایک قسم وہ ہے جو ہوا میں اڑتے ہیں (۲)ایک وہ ہے جو سانپوں اور کتوں کی شکل میں ظاہرہوتے ہیں (۳) اور ایک قسم وہ ہے جو (خانہ بدوشوں کی طرح) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں) (طبرانی ،حاکم ، بیھقی : باب الا سماء والصفات)۔
اس حدیث مبارک میں جن تین اصناف کا ذکر فرمایا گیا ہے ، اس سے مراد یہ نہیں کہ یہ جنات کی تین علیحدہ علیحد ہ اصناف ہیں ۔بلکہ تین اوصاف کے حوالے سے ذکرفرمایا گیا ہے کہ جنات کبھی ہوا میں اڑسکتے ہیں ۔کبھی مختلف جانوروں اور مخلوقات کاروپ دھار سکتے ہیں اور کبھی اپنی اصل تخلیقی حالت پر قیام اور کوچ کرتے رہتے ہیں۔
یہاں ضمنی طور پر بات آئی ہے ، اس لئے ممکن ہے کہ بعض قارئین کوہماری وضاحت مکمل طورپر مطمئن نہ کرسکے ۔ اس لئے ہم احادیث مبارکہ کی روشنی میں اپنی وضاحت کی تصدیق کریں گے ۔

جنات سانپ کی شکل میں:۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ حضورانورﷺنے فرمایا : اِنَّ بِالْمَدِیْنَۃِجِنًّا قَدْاَسْلَمُوْافَاِذَارَاَیْتُمْ مِّنْ ھٰذِہِ الْھَوَامِّ شَیْءًا فَأْذَنُوْہُ ثَلَاثًافَاِنْ بَدَالَکُمْ فَاقْتُلُوْہُ
مدینہ منورہ میں کچھ جنات مسلمان ہوگئے ہیں۔ لہذاتم اگر گھر میں کوئی سانپ دیکھوتو اسے تین بارمتنبہ (وارن ) کرو اگر پھر بھی ظاہر ہوتو اسے مارڈالو۔(مسلم شریف : کتاب السلام ،سنن ابی داود ۔کتاب الادب ، موطأ امام مالک : کتاب الاستیذان )۔
اس حدیث مبارک میں آنحضورﷺ نے صراحت سے فرمایا ہے کہ جنات سانپوں کی شکل میں آسکتے ہیں ۔اسی لئے گھرمیں سانپ نکلنے پر اہلِ مدنیہ کومتوجہ فرمایا کہ اسے محض سانپ سمجھ کر فوری قتل نہ کرنا ۔ ہوسکتاہے وہ سانپ نہ ہوبلکہ جن ہو۔ اس لئے پہلے اسے تین بار وار ننگ دوکہ ہمیں پریشان اور ہراساں نہ کرو اور آئندہ ہمارے سامنے نہ آنا ۔ اگر وہ جن ہواور شریف جن ہوا تو تین دفعہ کی وارننگ کے بعد وہ سامنے نہیں آئے گا ۔ اور اگر وہ بد خصلت جن ہوا یا جن نہیں بلکہ حقیقی سانپ ہوا تو چوتھی بار بھی سامنے آئے گا ۔ چوتھی بار اگر آتاہے تو خواہ وہ جن ہو، خواہ سانپ ، اسے مارڈالو۔اس حدیث مبارک میں ایک اور لطیف اشارہ اس بات کا بھی مل گیا کہ جنات جب کسی دوسری مخلوق کے روپ میں ظاہر ہوں تو اس وقت انہیں مارنا بہت آسان ہوجاتاہے ۔ جس مخلوق کی صورت میں ظاہر ہوں ، اس مخلوق کی طرح انہیں قتل کیاجاسکتاہے ۔

جنات کتے کی شکل میں:۔ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایاکہ نمازی کے سامنے سے کا لا کتا گذرجائے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے ۔ صحاب�ۂ کرامؓ نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ سرخ اور سفید کتے کے گذر نے سے تونہیں ٹوٹتی پھر صرف کالے کا ایسا کون ساجرم ہے کہ اسی کے گذرنے سے نماز ٹوٹے ؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
اَلْکَلْبُ الْاَسْوَدُشَیْطَانٌ  کالا کتا شیطان ہوتاہے۔
(صحیح مسلم : کتاب الصلوۃ ، سنن ابی داود : کتاب الصلوہ ، سنن الترمذی : کتاب الصید ، سنن نسائی : کتاب القبلۃ ، سنن ابن ماجۃ : کتاب الاقامۃ ، مسند احمد : ۵/۱۴۹)۔
یعنی جنات میں سے شیاطین جنات کالے کتے کا روپ بھرکر نماز ی کے آگے سے جان بوجھ کر گذرتے ہیں تاکہ اس کی نماز خراب ہو۔ اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر کالا کتا شیطان ہوتاہے ۔
جنات انسانی روپ میں:۔ سیرت ، تفسیر اور حدیث شریف کا مطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ غزوۂ بدر کے موقعہ پر شیطان ایک عرب سردار سراقۃ بن مالک کی شکل میں مشرکینِ مکہ کے ساتھ ساتھ بدرتک آیا اور مستقل طورپر نہ صرف ان کے مشوروں میں شریک رہا بلکہ ان کی مسلسل حوصلہ افزائی بھی کرتا رہا ۔اسی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد ہے :۔
اور یاد کرو جب شیطان نے ان (مشرکین مکہ ) کے لئے ان کے (برے ) اعمال کو خوبصورت بناکر پیش کیا اور کہا : آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتااور یہ کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔(الانفال : ۴۸)۔
لیکن جب بدرمیں اہلِ ایمان کی نصرت کے لئے وعدۂ خداوندی کے مطابق آسمانوں سے فرشتوں کی صفیں اتر ناشروع ہوئیں تواس کا کس بل نکل گیا اور کفارِ مکہ کو بیچ مبخدھار کے چھوڑکر بھاگ کھڑا ہوا۔ ارشادہے :۔
جب دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آراء ہوئیں تووہ (شیطان ) الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہوا اور کہنے لگا میرا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ، میں وہ دیکھ رہا ہوں جوتم نہیں دیکھ رہے اور میں اللہ سے ڈررہا ہوں۔ (الانفال : ۴۸)۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے روز ابلیس سراقۃ بن مالک بن جعشم کے روپ میں بنی مدلج کے لوگوں کی شکل میں اپنی سپاہ ساتھ لے کر اپنا الگ جھنڈا اٹھا کرآیا ۔ اور مشرکین سے کہاکہ یہ مسلمان آج تم پر فتح مندنہیں ہوسکتے اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں ۔ جس وقت وہ مشرکین کویہ کہہ کردلاسہ دے رہاتھا ،حضرت جبریل امین اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔ جب شیطان کی ان پر نظرپڑی ،اور اس وقت اس کا ہاتھ ایک مشرک کے ہاتھ میں تھا ، تو اس نے اس سے فوراً ہاتھ چھڑایا اور بھاگ کھڑا ہوا ۔اس کے بھاگتے ہی اس کی فوج بھی بھاگ کھڑی ہوئی ۔
جب شیطان اس سے ہاتھ چھڑاکر پیٹھ دے کے بھاگا تواس نے آواز دی کہ سراقہ ! تم تو ہمارے مددگار ہو؟ (پھر بھاگ کیوں رہے ہو؟) اس نے جواب دیا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں (یعنی جبریل علیہ السلام اور فرشتوں کی فوج ) وہ تمہیں نظر نہیں آرہا ۔ میں اللہ سے ڈررہاہوں کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے ! (تفسیرابن جریر ، درمنثور ، دلائل النبوّۃ للبیھقی :۳/۷۸)۔
شیطان نجدی بڈھے کے روپ میں:۔ حبرالامت ، سید المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن صنادیدِقریش دار الندوۃ (جواس زمانے میں مشرکینِ مکہ کا اسلام کے خلاف ایک مقامی سطح کا اقوامِ متحدہ جیسا سازشی ادارہ تھا ) میں جمع ہوئے تو شیطان ایک بوڑھے بزرگ کی صورت میں وہاں آگیا۔ سردارانِ قریش نے(اپنے درمیان ایک اجنبیبوڑھے کودیکھا تو) پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتلایاکہ میں علاقۂ نجدکا ایک بزرگ ہوں۔ تم جس مقصدکے لئے جمع ہوئے ہو، اسے میں نے بھی سنا ہے ۔ اس لئے میں آیا ہوں ۔ تمہیں میری طرف سے اچھی رائے اور خیر خواہی حاصل ہوگی ۔کفارِ مکہ نے کہا ٹھیک ہے ! تم بھی ہمارے مشورہ میں شریک ہوجاؤ۔
شیطان نے ان سے کہاکہ اس شخص (یعنی حضوراقدسﷺ ) کے بارے میں اچھی طرح غور کرلو۔ خداکی قسم وہ وقت قریب آگیاہے کہ یہ تم پر غالب آجائے گا ۔
ایک سردار نے مشورہ دیا کہ حضورانورﷺ کورسیوں سے باندھ کر تکالیف دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ یہ بھی تو انہی شعراء کی طرح ایک شاعرہے۔ (اسے بھی ان شعراء والے حشرکامزہ چکھاؤ)۔
اللہ کے دشمن نجدی شیخ (شیطان ) نے کہا واللہ ! یہ توکوئی معتبررائے نہیں ہے۔ تم نے باندھا اور بات اس کے صحابہؓ تک پہنچی تووہ اسے قیدخانے سے چھڑواکر آزادبھی کردیں گے اور تمہارے مقابلے اور مزاحمت کے لئے میدان میں بھی اترآئیں گے ۔ ایسے میں تو میں اس بات کی بھی تمہیں گارنٹی نہیں دے سکتا کہ ہوسکتا ہے الٹاوہ تمہیں ہی اس علاقے سے باہر نکال دیں ۔
ایک دوسرا سردار بولا کہ پھر اسے علاقہ بدرکرکے سکون کا سانس لو۔ وہ یہاں نہیں ہوگا تو تمہیں اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور (نعوذباللہ )اس کاشردوسرے لوگوں تک محدود ہوگا جواس کے سامنے ہوں گے ۔
(نجدی بڈھا) ابلیس بولایہ بھی کوئی معقول رائے نہیں ہے، تم نے اس (حضورﷺ )کی گفتگوکی مٹھاس اور کلام کی فصاحت وبلاغت پر غورنہیں کیا۔ اگر وہ یہاں سے چلاگیا اور اس نے دوسرے شہروں میں جاکر لوگوں کودعوت دی تو لوگ جوق درجوق اس کے حلقۂ اثرمیں آجائیں گے حتی کہ ایک دن وہ ان عربوں کو ساتھ لیکر تم پر چڑھائی کردے گا اور تمہیں قتل بھی کرڈالے گا اور علاقہ بدر بھی کردے گا ۔ اس بات کی تمام سرداروں نے بھی توثیق کی کہ نجدی بزرگ صحیح کہہ رہاہے۔ کسی اور تجویزپرغور کیاجائے۔
یہاں مشرکینِ عالم کا سردار ، ہزارفرعونوں کا ایک فرعون ، ہزار شیطانوں کاایک شیطان اور ابلیس کاگرو ابوجھل ابن ھشام بولاکہ میں ایک مشورہ دیتاہوں ۔ذرااس پر بھی غور کرلو۔میرا خیال ہے کہ اس سے بہتر کوئی رائے تمہارے سامنے نہیں آئے گی ۔
سردار انِ مکہ نے پوچھا ، آپ کی کیارائے ہے؟
بولا: ہم ہر قبیلے سے ایک جوان جنگجوکا انتخاب کرکے سب کو ایک ایک تلوار تھمادیتے ہیں۔ اور ان سے یہ کہتے ہیں کہ (حضرت )محمدﷺ پر یکبارگی اس طرح حملہ کریں کہ سب کی تلواریں ایک ہی وقت میں اس کے جسم پر پڑکراسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔
چونکہ تمام قبائل اس قتل میں یکساں شریک ہوں گے ، اس لئے محمدﷺ کے خاندان والوں اور پیروکاروں کے لئے حجاز کے تمام قبائل سے بدلہ لینا ممکن نہ ہوگا اور معاملہ کنٹرول ہوجائے گا ۔اور اگر کوئی میدان میں آیا بھی تو تمام قبائل کی قوت کے آگے اسے بکھرنااور ختم ہی ہونا ہوگا ۔
شیطان نے یہ رائے سنی تو پھڑک اٹھا اور کہنے لگا کہ یہ ہے ایک کارآمدو معقول رائے اور میری بھی یہی رائے تھی ! (ابن اسحق ، ابن جریر،ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابونعیم ، دلائل النبوۃ للبیھقی بحوالہ لقط المر جان للسیوطی )۔ 
General Help
+923357764997
+923457818315

Share:

0 comments:

Post a Comment

Kindly Report Dead or Broken link..

General Help
+923357764997
+923457818315

CONTECT US

ہمارے متعلق شفا ء علی آن لائین تشخیص و علاج

ہمارے متعلق شفا ء علی آن لائین تشخیص و علاج کی سروس  لوگو ں کے مسائل اور وقت کی ضرورت کے تحت شروع کی گئی دور درازکے  اور ایسے لوگ جو ...

Blog Archive