Monday 4 September 2017

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادو

 حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جادو


قرآن حکیم ہمیں بتلاتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دینِ حق کیدعوت دی تو فرعون اور اس کی پارلیمنٹ پکار اٹھی کہ یہ تو جادو ہے:
جب ہماری طرف سے انکے پاس حق آیا تو وہ پکار اٹھے کہ یہ تو واضح جادو ہے۔‘‘ (یونس:۷۶
موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے جادو کی مذمت:۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو کے وجود کا انکار تو نہیں فرمایا۔ البتہ اس پر حیرت کا اظہار فرمایا کہ تم حق کو جادو کا نام دے رہے ہو۔ اورساتھ ہی جادو کی مذمت بھی فرما دی کہ جادو گر کبھی کامیاب وبامراد نہیں ہو سکتے:۔’’موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب حق تمہارے سامنے آیا تو تم اس طرح کی باتیں کرنے لگ گئے ہو؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادو گر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ ‘‘
(یونس: ۷۷)
ساحروں کو مذہبی اور سرکاری سطح پر نہایت اہم مرتبہ اور مقام حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون کے سامنے حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے معجزات پیش کئے اور بعد میں جب بنی اسرائیل کی نجات کا مطالبہ کیا تو اس نے بڑے طمطر اق سے یہ اعلان کیا کہ یہ دونوں جوان محض جادو گر ہیں اور یہ اپنے جادو کے زور سے تم لوگوں کو اپنی تہذیب وثقافت سے محروم کرنا چاہتے اور اپنی بستیوں سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں :
اس لئے ان کے مقابلے کی بھرپور تیاری شروع کی اور ملک بھر سے چوٹی کے جادوگروں کو بلا نے کے لئے سرکاری اہل کار روانہ کردیئے ۔
انہیں مصرمیں بلاکر شاہی پروٹوکول دیا ۔ان سے وعدے وعید کئے۔ وہ بھی آج کے جادوگروں کی طرح لالچی، خود غرض، جاہ پرست، روپے پیسے کے بھوکے اور چھچھورے قسم کے لوگ تھے ۔ انہوں نے آتے ہی پہلا سوال یہ داغاکہ اگر ہم موسی علیہ السلام پر غالب آجائیں تو ہمیں اس کا خاطرخواہ معاوضہ ملے گا ؟
ان آیاتِ قرآنی سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ لوگ صرف پیسے کے پجاری تھے۔ اس لئے سودا پہلے کررہے ہیں، مقابلے کی نوبت اہی وہ سوال کر رہے ہیں کہ موسی علیہ السلام کو ہرانے اور شکست دینے پر رقم کتنی دوگے ؟ فرعون نے کہا کہ رقم کی بات تو چھوڑو ۔اس کے لئے تو میں خزانے کے منہ کھول دوں گا ۔ تمہیں اس سے بھی بڑھ کر میں نوازوں گا ۔ اگر تم موسی اور ہارون علیھما السلام کو شکست دے دوتومیں تمہیں شاہی دربار میں اپنا مصاحب اور ندیم بھی بنا لوں گا۔ تمہیں اپنی پارلیمنٹ میں شامل کرلوں گا ۔ مصر کے سیا ہ وسفید کے مالکوں میں شامل کرلوں گا۔
اس دور میں آج کل کی یتیم ویسیر، پبلک کے ووٹوں کی محتاج اور عوام کے سامنے جوابدار قسم کی پارلیمنٹ نہیں ہوا کرتی تھی ۔ بلکہ پارلیمنٹ کا انتخاب بادشاہ اپنی پسند پر کرتا تھا اور وہ تاحیات پارلیمنٹ ممبر بن کر عوام کے سیاہ وسفید کے مالک بن جاتے تھے۔
اگر موسی علیہ السلام کے زمانہ میں جادو اتنے عروج پر تھا کہبھی آئی نہیں، ابھی تو یہ پروجیکٹ ان کے سپر د کرنے کی بات چل رہی ہے اور چھوٹتے شاہی درباروں میں ان کی پذیرائی اس شان وشوکت سے ہورہی تھی تو اس کا آغاز کتنا پہلے ہو چکا ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ کسی بھی چیز کو آغاز سے عروج تک کا سفرطے کرنے کے لئے ایک طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ جادوٹونے کے تجربات اور ان میں ارتقاء، پھر عوام میں اس کی مقبولیت پیدا کرنے اور عوام سے آگے بڑھ کر خواص کے دلوں میں اس کی جگہ بنا نے اور خواص سے بھی آگے بڑھ کر حکام کے دلوں پر اس کی مقبولیت کو مسلط کرنے کے لئے صد یوں کا سفردر کار ہوتا ہے۔
یہاں یہ بھی ہم بتلا تے چلیں کہ اسلام سے قبل کے تمام ادیان میں جادوکو مذہبی تقدس کا درجہ حاصل رہا ہے۔

اس سے اور بھی یہ واضح ہوتاہے کہ جادوکا چلن حضرت موسی علیہ السلام سے صدیوں پہلے سے رائج تھا اور مختلف اقوام میں نسل درنسل منتقل ہوتے ہوتے ان کے خون میں رچ بس چکا تھا۔ حتی کہ آسمانی الہا می مذاہب کے پیر وکا ر وں نے بھی اپنے پیغمبر وں کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالناتو گوار ا کرلیا مگر جادو ٹونے کی دلدل سے باہر نکلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ صرف یہی نہیں کہ جادو کے دامن سے وابستہ رہے بلکہ اللہ اور اس کے رسولوں پر جھوٹا بہتا ن باندھتے ہوئے اسے مذہبی تقدس کا درجہ بھی دے دیا۔
ہند وستان کا ہندومت ہویا چین وجاپان کا بدھ مت، سابقہ آسمانی کتب کے حامل یہودی ہوں یاعیسا ئی اور دیگر مذاہب میں زردشتی ہوں یا مختلف مغربی ومشرقی اقوام وملل، سبھی کے ہاں جادو کو مذہبی تقدس حاصل تھا۔
جب عوامی، مذہی، سیاسی اور حکومتی سطح پر جادو کی پذیرائی کا یہ حال ہوتو جادو گروں کو عوام کے دلوں پر راج کرنے سے کیا امر مانع ہوسکتا ہے ؟
Share:

0 comments:

Post a Comment

Kindly Report Dead or Broken link..

General Help
+923357764997
+923457818315

CONTECT US

ہمارے متعلق شفا ء علی آن لائین تشخیص و علاج

ہمارے متعلق شفا ء علی آن لائین تشخیص و علاج کی سروس  لوگو ں کے مسائل اور وقت کی ضرورت کے تحت شروع کی گئی دور درازکے  اور ایسے لوگ جو ...

Blog Archive